تاریکیوں میں ہم جو گرفتار ہو گئے
شاید سحر سے پہلے ہی بیدار ہو گئے
دنیا یہ کہہ رہی ہے مۓ خوار ہو گئے
دو گھونٹ کیا پیۓ کہ گناہگار ہو گئے
ناکامیوں نے اور بھی سرکش بنا دیا
منزل کی سمت تجھ کو نہ لے جائیں گے کبھی
وه راستے جو آپ ہی ہموار ہو گئے
اب کے تو نوکِ خار بھی گلرنگ ہو چلی
کل دیکھنا کہ دشت بھی گلزار ہو گئے
اے طائرو! یہ شعلہ نوائی کا وقت ہے
جاگو، اٹھو کہ صبح کے آثار ہو گئے
نوریؔ ہمیں جہاں میں مسرت کی تھی تلاش
آخر ہر ایک فرد کے غم خوار ہو گئے
کرار نوری
No comments:
Post a Comment