بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی
وسعتیں ان میں وہی لائے ہیں ویرانوں کی
کل گنے جائیں گے زمرے میں ستم رانوں کے
خیر مانگیں گے اگر آج ستم رانوں کی
خواب باطل بھی تو ہوتے ہیں تن آسمانوں کے
زخم شاکی ہیں ازل سے نمک افشانوں کے
بات رکھی گئی ہر دور میں پیکانوں کی
وہ بنا ساز بھی ہوتے ہیں گلستانوں کے
خاک جو چھانتے پھرتے ہیں بیابانوں کی
ٹکڑے جو گنتے ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
جان بن جاتے ہیں آخر وہی مۓ خانوں کی
تیور آتے ہیں حقیقت میں بھی افسانوں کے
کچھ حقیقت بھی ہوا کرتی ہے افسانوں کی
ہو بھی جاتے ہیں رفو چاک گریبانوں کے
تنگ بھی ہوتی ہے پہنائیاں دامانوں کی
عبرت آباد بھی دل ہوتے ہیں انسانوں کے
داد ملتی بھی نہیں خون شدہ ارمانوں کی
ذرے زندانِ ملامت بھی ہیں ویرانوں کے
در بنا کرتی ہیں دیواریں ہی زندانوں کی
مختار صدیقی
No comments:
Post a Comment