Tuesday 25 October 2016

بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی

بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی
وسعتیں ان میں وہی لائے ہیں ویرانوں کی
کل گنے جائیں گے زمرے میں ستم رانوں کے
خیر مانگیں گے اگر آج ستم رانوں کی
خواب باطل بھی تو ہوتے ہیں تن آسمانوں کے
سعئ مشکور بھی ہوتی ہے گراں جانوں کی
زخم شاکی ہیں ازل سے نمک افشانوں کے
بات رکھی گئی ہر دور میں پیکانوں کی
وہ بنا ساز بھی ہوتے ہیں گلستانوں کے
خاک جو چھانتے پھرتے ہیں بیابانوں کی
ٹکڑے جو گنتے ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
جان بن جاتے ہیں آخر وہی مۓ خانوں کی
تیور آتے ہیں حقیقت میں بھی افسانوں کے
کچھ حقیقت بھی ہوا کرتی ہے افسانوں کی
ہو بھی جاتے ہیں رفو چاک گریبانوں کے
تنگ بھی ہوتی ہے پہنائیاں دامانوں کی
عبرت آباد بھی دل ہوتے ہیں انسانوں کے
داد ملتی بھی نہیں خون شدہ ارمانوں کی
ذرے زندانِ ملامت بھی ہیں ویرانوں کے
در بنا کرتی ہیں دیواریں ہی زندانوں کی

مختار صدیقی

No comments:

Post a Comment