Tuesday 25 October 2016

ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم

ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم
اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ آزاد ہیں ہم
کیوں ہمیں لوگ سمجھتے ہیں یہاں پردیسی
ایک مدت سے اسی شہر میں آباد ہیں ہم
کاہے کا ترکِ وطن، کاہے کی ہجرت بابا
اسی دھرتی کی، اسی دیش کی اولاد ہیں ہم
ہم بھی تعمیرِ وطن میں ہیں برابر کے شریک
در و دیوار اگر تم ہو، تو بنیاد ہیں ہم
ہم کو اس دورِ ترقی نے دیا کیا معراجؔ
کل بھی برباد تھے اور آج بھی برباد ہیں ہم​

معراج فیض آبادی

No comments:

Post a Comment