دلِ درد آشنا میرا، کسی کا ہم زباں کیوں ہو
عیاں انجام ہو جس کا وہ میری داستاں کیوں ہو
نہ سوچو پہلے کیا انجام ہو گا دل کے سودا کا
دمِ ہنگامہ آرائی، غم سود و زیاں کیوں ہو
کِیا بادِ صبا نے حسن کا ہر چار سُو شہرہ
نکالا گوشۂ عزلت سے اس کو، میرے نالوں نے
مِری آہ و فغاں سن کر وہ مجھ پر مہرباں کیوں ہو
بدل دی رخ کی زردی غازۂ مغرب کی سرخی نے
قدیمی وضع کا پابند اب ہندوستاں کیوں ہو
نیاز و ناز کی باتیں،۔ تکلف سے ہیں بالا
تکلم میں گُل و بلبل کے مالی ترجماں کیوں ہو
بہا ہے اشک کے ہمراہ، میرِ کارواں ہو کیوں
جو سرمہ کی طرح ہو بیوفا وہ رازداں کیوں ہو
رہِ کوئے صنم، گوشہ نشیں زاہد بتائے کیا
جو منزل سے ہو ناواقف وہ میرِ کارواں کیوں ہو
پئے تسکین دل لازم ہے اے مہجورؔ خاموشی
خیال بیش و کم، تا کے، گمانِ ایں و آں کیوں ہو
مہجور کاشمیری
No comments:
Post a Comment