Wednesday 26 October 2016

فتنہ پھر آج اٹھانے کو ہے سر لگتا ہے

فتنہ پھر آج اٹھانے کو ہے سر لگتا ہے
خون ہی خون مجھے رنگِ سحر لگتا ہے
مان لوں کيسے کہ ميں عيب سراپا ہوں فقط
ميرے احباب کا يہ حسنِ نظر لگتا ہے
کل جسے پھونکا تھا يہ کہہ کے کہ دشمن کا ہے گھر
سوچتا ہوں تو وہ آج اپنا ہی گھر لگتا ہے
احتياطاً کوئی در پھوڑ ليں ديوار ميں اب
شور بڑھتا ہوا کچھ جانبِ در لگتا ہے
ايک دروازہ ہے ہر سمت ميں کھلنے کے لیے
ہو نہ ہو يہ تو مجھے شيخ کا گھر لگتا ہے

آنند نرائن ملا

No comments:

Post a Comment