فتنہ پھر آج اٹھانے کو ہے سر لگتا ہے
خون ہی خون مجھے رنگِ سحر لگتا ہے
مان لوں کيسے کہ ميں عيب سراپا ہوں فقط
ميرے احباب کا يہ حسنِ نظر لگتا ہے
کل جسے پھونکا تھا يہ کہہ کے کہ دشمن کا ہے گھر
احتياطاً کوئی در پھوڑ ليں ديوار ميں اب
شور بڑھتا ہوا کچھ جانبِ در لگتا ہے
ايک دروازہ ہے ہر سمت ميں کھلنے کے لیے
ہو نہ ہو يہ تو مجھے شيخ کا گھر لگتا ہے
آنند نرائن ملا
No comments:
Post a Comment