موجِ بہار کیا گئی، گل بھی گئے، صبا گئی
شاخِ شجر یہ دیکھ کر سکتے میں جیسے آ گئی
شاخ پہ میری نغمہ سنج کتنے طیور تھے مگر
آئی خزاں تو ایک اک صورتِ آشنا گئی
حرفِ وفا میں روشنی آئے کہاں سے دوستو
آئیں گے اور تھوڑی دیر بیٹھیں گے لوگ سائے میں
دیکھے گا کون تیز دھوپ، میرا بدن جلا گئی
کوچہ و بام در نے لب کھولے نہیں ہیں رات بھر
جانے ہوائے شام کیا ان کو خبر سنا گئی
حسرتِ دل تو رہ گئی راہ میں ہی کہیں مگر
منزلِ خواب کی طرف آہِ شکستہ پا گئی
وصل کی ساعتوں میں پھر ایسی کوئی ہوا چلی
اس کا بھی دل بجھا گئی، میرا بھی دل بجھا گئی
خورشید ربانی
No comments:
Post a Comment