Monday 31 October 2016

ہمارا کیا ہے ہماری عادت سی ہو چکی ہے

ہمارا کیا ہے
ہماری عادت سی ہو چکی ہے
شفق کی بے خواب وادیوں میں بھٹکتے رہنا
گئی بہاروں کو یاد کرنا
فریب خوردہ سماعتوں کے فسوں میں رہنا
افق میں تحلیل ہوتے رنگوں کو رتجگوں میں تلاش کرنا

تمام اجڑے ہوۓ دیاروں میں خاک ہوتے ہوۓ مزاروں پہ جا نکلنا
اور اپنے گزرے ہوۓ دنوں کا حساب کر کے، کتاب کر کے ملول ہونا
ملول کرنا
ہمارا کیا ہے
ہماری عادت سی ہو چکی ہے
حروف و قرطاس سے الجھنا، الجھتے رہنا
خیال کی بے پناہ وسعت میں گرد ہوتی ہوئی مسافت کی چاپ سننا
کہیں کہیں یہ قیام کرنا، کلام کرنا
خلا کی نیلی ردا پہ جو کچھ رقم ہوا ہے، اسے سمجھنا
سمجھ کے دنیا میں عام کرنا
اور آنے والی تمام نسلوں کے نام کرنا
ہمارا کیا ہے

کرامت بخاری

No comments:

Post a Comment