بہار بے سپر جامِ یار گزرے ہے
نسیم تیر سی چھاتی کے پار گزرے ہے
شراب حلق سے ہوتی نہیں فرو تجھ بِن
گلوۓ خشک سے تیغِ آبدار گزرے ہے
گزر مِرا تِرے کوچے میں گو نہیں تو نہ ہو
سمجھ کے قطع کر اب پیرہن مِرا خیّاط
نظر سے چاک کے یاں تار تار گزرے ہے
ہزار حرف شکایت کا، دیکھتے ہی تجھے
زباں پہ شکر ہو بے اختیار گزرے ہے
کہے ہے آج تِرے در پہ اضطرابِ نسیم
کہ اس جہاں سے کوئی خاکسار گزرے ہے
تِری گلی سے گزرتا ہوں اس طرح ظالم
کہ جیسے ریت سے پانی کی دھار گزرے ہے
میں وہ نہیں کہ کوئی مجھ سے مل کے ہو بدنام
نہ جانے کیا تِری خاطر میں یار گزرے ہے
مجھے تو دیکھ کے جوش و خروش سوداؔ کا
اسی ہی سوچ میں فصلِ بہار گزرے ہے
یہ آدمی ہے کہ سر مارتا پھرے ہے یہ سنگ
کہ بادِ تند سوئے کوہسار گزرے ہے
مرزا رفیع سودا
No comments:
Post a Comment