حسرتِ فیصلۂ دردِ جگر باقی ہے
اور ابھی سلسلۂ شام و سحر باقی ہے
آئیے اور نظر سے بھی زمانہ دیکھیں
زندگی ہے تو محبت کی نظر باقی ہے
یا مِری صبح میں رونق نہیں ہنگاموں کی
نوجوانی گئی انفاس کی خوشبو نہ گئی
پھول مرجھائے، مگر بادِ سحر باقی ہے
کوچ ہی کوچ ہے ہر رنگ میں دنیا کی حیات
اک سفر ختم ہوا، ایک سفر باقی ہے
یادگارِ حرم و دَیر ہے ٹوٹا ہوا دل
شہر وِیران ہوا ایک یہ گھر باقی ہے
حسن دلکش ہے جہاں تک ہے تبسم کا ثبات
عشق زندہ ہے، اگر دِیدۂ تر باقی ہے
بے مے و رنگ ہے، کاشانۂ تہذِیبِ جدید
کُچھ پسِ پردہ نہیں، پردۂ در باقی ہے
زندگی کیا ہے ابھی تجربہ کرنا ہے نشورؔ
شاعری کیا ہے ابھی نقد و نظر باقی ہے
نشور واحدی
No comments:
Post a Comment