Thursday 20 October 2016

مسئلہ ہے کہ کچھ کیا جائے

مسئلہ ہے کہ کچھ کِیا جائے 
مسئلہ ہے کہ کیا کیا جائے
زندگی زہر کا پیالہ ہے 
مسئلہ ہے کہ یہ پیا جائے
پیراہنِ حیات ادھڑا ہے 
مسئلہ ہے کہ یہ سِیا جائے
سانس لینا بھی اک اذیت ہے 
مسئلہ ہے کہ یہ لیا جائے
بِن تمہارے جیا نہیں جاتا 
مسئلہ ہے کہ یوں جیا جائے
عشق دریا ہے آگ کا پھر بھی 
مسئلہ ہے کہ یہ کیا جائے
صحن دل میں وفا کا لاشہ ہے 
مسئلہ ہے کہ رو لیا جائے
پھول رکھ آئی ہوں کتابوں میں
مسئلہ ہے کہ پڑھ لیا جائے

شائستہ الیاس

No comments:

Post a Comment