کیوں یاد کے دریا کا کنارا نہیں ہوتا
ٹوٹے ہوئے خوابوں پہ گزارا نہیں ہوتا
پھرتے ہیں تیرے شہر میں ہم ابر کی صورت
تجھ سے تو برسنے کا اشارا نہیں ہوتا
قبضہ ہے میرے دل پہ تیری یاد کا جاناں
یہ عشق کا سودا ہے نہ قیمت ہے نہ بولی
اس کام میں کہتے ہیں خسارا نہیں ہوتا
اس عمر میں احساس زیاں اور بڑھا ہے
اے کاش! ہمیں اس نے پکارا نہیں ہوتا
اب شہر میں ہر شخص کو اپنی ہی پڑی ہے
بے کس کا یہاں کوئی سہارا نہیں ہوتا
انساں کی ضرورت نے شجرکاٹ دئیے ہیں
جنگل میں پرندوں کا گزارا نہیں ہوتا
شائستہ الیاس
No comments:
Post a Comment