Thursday 20 October 2016

کیوں یاد کے دریا کا کنارا نہیں ہوتا

کیوں یاد کے دریا کا کنارا نہیں ہوتا 
ٹوٹے ہوئے خوابوں پہ گزارا نہیں ہوتا
پھرتے ہیں تیرے شہر میں ہم ابر کی صورت 
تجھ سے تو برسنے کا اشارا نہیں ہوتا
قبضہ ہے میرے دل پہ تیری یاد کا جاناں 
اس جبر مسلسل سے کنارا نہیں ہوتا
یہ عشق کا سودا ہے نہ قیمت ہے نہ بولی 
اس کام میں کہتے ہیں خسارا نہیں ہوتا
اس عمر میں احساس زیاں اور بڑھا ہے 
اے کاش! ہمیں اس نے پکارا نہیں ہوتا
اب شہر میں ہر شخص کو اپنی ہی پڑی ہے 
بے کس کا یہاں کوئی سہارا نہیں ہوتا
انساں کی ضرورت نے شجرکاٹ دئیے ہیں 
جنگل میں پرندوں کا گزارا نہیں ہوتا

شائستہ الیاس

No comments:

Post a Comment