خواہش
اس سے پہلے کے یہ خواہشِ وصل مٹے
اس سے پہلے کے میری آنکھ میں تارے نہ رہیں
اس سے پہلے کے میرے خون میں گرمی نہ رہے
اس سے پہلے کے میری سانس میں خوشبو نہ رہے
نہ ہی میرے لیے اور فقط صرف میرے لیے
اپنی گم گشتہ کسی کھوئی ہوئی شے کے لیے
لوٹ کر آؤ کبھی اس شہر میں تو
ایک پَل کو میرے ہاں بھی ٹھہرو
شائستہ الیاس
No comments:
Post a Comment