بندہ قرار دے کے ڈرانے لگے مجھے
میرے بناۓ بُت ہی بنانے لگے مجھے
کیسا نیا خیال مِرے ذہن میں جگا
یکدم تمام لفظ پرانے لگے مجھے
کس منہ سے اب پروں کی تمنا کِیا کروں
جب ان پہ کھل گیا مِرے افکار کا مزاج
الفاظ تب سے دوست بنانے لگے مجھے
پہلے تو رشک سے مِری رنگت بدل گئی
“پھر یوں ہوا چراغ جلانے لگے مجھے”
رحمانؔ! تُو تو خود مِرا اپنا وجود تھا
تجھ تک رسائ میں بھی زمانے لگے مجھے
ق
جن جن کا آندھیوں میں سہارا بنا تھا میں
جم کر کھڑے ہوۓ تو گرانے لگے مجھے
احسان کا صلہ جو ملا بھی تو کیا ملا
جن کو کھلا رہا تھا میں، کھانے لگے مجھے
رحمان حفیظ
No comments:
Post a Comment