Thursday, 20 October 2016

حسن ایسا کہ جو سب کو نظر آنے کا نہیں

حسن ایسا کہ جو سب کو نظر آنے کا نہیں
عشق اتنا کہ مِرے دل میں سمانے کا نہیں
بات ہے اور زباں پر نہیں لانے والی
راز ہے اور کسی سے بھی چھپانے کا نہیں
جی میں آتی ہے کہ لَے اور اٹھاتا جاؤں
اور یہ گیت کسی کو بھی سنانے کا نہیں
آپ سودائی ہیں تو شہر میں وحشت کِیجے
یہ اثاثہ کسی صحرا میں لٹانے کا نہیں
آپ ہی اپنے لیے گوشۂ عافیّت ہوں
خود سے نکلوں تو کسی اور ٹھکانے کا نہیں

رحمان حفیظ 

No comments:

Post a Comment