حسن ایسا کہ جو سب کو نظر آنے کا نہیں
عشق اتنا کہ مِرے دل میں سمانے کا نہیں
بات ہے اور زباں پر نہیں لانے والی
راز ہے اور کسی سے بھی چھپانے کا نہیں
جی میں آتی ہے کہ لَے اور اٹھاتا جاؤں
آپ سودائی ہیں تو شہر میں وحشت کِیجے
یہ اثاثہ کسی صحرا میں لٹانے کا نہیں
آپ ہی اپنے لیے گوشۂ عافیّت ہوں
خود سے نکلوں تو کسی اور ٹھکانے کا نہیں
رحمان حفیظ
No comments:
Post a Comment