یاد آتا ہے رہ کر، پھر وہی زمانا ساقی کا
میرے قصدِ توبہ پر، پہروں سمجھانا ساقی کا
پہلے پہل وہ ساغرِ بر کف ہاتھ بڑھانا ساقی کا
آنکھ ملانے کی کوشش میں شرما جانا ساقی کا
وقت کا رنگیں آئینہ ہے یا مۓ خانہ ساقی کا
میرا پسینے میں وہ نہا کر، ساغر خالی کر دینا
غصے میں وہ میری 'نہیں' پر آنکھ دکھانا ساقی کا
شیشے صدقے جام تصدق رنگ میں ڈوبی شوخی پر
یاد ہے ٹھوکر لے کر خود، ساغر چھلکانا ساقی کا
آئے دن، ہر تازہ توبہ، شام کو ٹوٹا کرتی تھی
ہم سے پوچھو، ہاں ہم نے دیکھا ہے زمانا ساقی کا
سنگِ راہ نہ بن اے ناصح! پتھر بھی بہ جاتے ہیں
روز لگا رہتا ہے یہاں تو آنا جانا ساقی کا
ہم سے پوچھو ٹوٹا ہوا دل ہم نے جڑتے دیکھا ہے
ہونٹوں پر دوڑا کے تبسم، آنکھ ملانا ساقی کا
یادِ ماضی کا پیمانہ،۔ روز چھلکتا رہتا ہے
ہر آنسو کو از بر ہے ایک اک افسانا ساقی کا
بجلی دوڑتی تھی رگ رگ میں پیاس سی اک لگتی تھی سراجؔ
یاد ہے ہاں انگڑائی لے کر جام اٹھانا ساقی کا
سراج لکھنوی
No comments:
Post a Comment