Thursday 20 October 2016

ہمسفر رہ میں ہوئے جو سر منزل نہ ملے

ہمسفر رہ میں ہوئے جو سرِ منزل نہ ملے
مل گئے ہیں بڑے آساں جو بمشکل نہ ملے
ہم بچھڑ جائیں تو ممکن ہے کچھ اخلاص بڑھے
مدتوں ساتھ رہے دوستو! اور دل نہ ملے
مندمل یہ تو ہوئے جاتے ہیں سب وقت کے ساتھ
زخم سینے میں ہمیں داد کے قابل نہ ملے
جو نہ گردابِ بلاخیز کا ہم رقص ہوا
اس سفینے کو خدایا کبھی ساحل نہ ملے
بارہا ہم رہے ہنگامۂ عالم میں شریک
بارہا کشمکشِ ذات میں شامل نہ ملے
مستقل چلتا رہے قافلۂ شوق و طلب
مجھ کو تُو، رِند کو مۓ، قیس کو محمل نہ ملے
موردِ ننگ نہیں ہے ہمیں شوکتؔ یہ کمال
ڈھونڈ آئے ہیں کہیں مردمِ کامل نہ ملے

شوکت واسطی

No comments:

Post a Comment