اے اہلِ نظر! سوز ہمِیں، ساز ہمِیں ہیں
عالم میں پسِ پردۂ ہر راز ہمیں ہیں
منسوب ہمیں سے ہیں گُل و مُل کی روایات
جو شوق بھی ہو، نقطۂ آغاز ہمیں ہیں
اے شاہدِ کونین! اٹھا، پردۂ اسرار
اے جبرِ مشیّت، بہ ہمہ بے پر و بالی
اب بھی ہے جنہیں ہمتِ پرواز ہمیں ہیں
مۓ خوار سہی ہم، مگر اے زاہدِ خودبِیں
اس شہر میں اخلاص کی آواز ہمیں ہیں
یہ رتبۂ عالی نہیں ہر ایک کا مقسوم
رِندی کا ملا ہے جنہیں اعزاز، ہمیں ہیں
مۓ خانے میں چلتا نہیں اعجاز کسی کا
کچھ ہیں تو یہاں صاحبِ اعجاز ہمیں ہیں
خوش ہیں، کہ نہیں اس ستم آرا کا ستم عام
نازاں ہیں کہ اس کے حدفِ ناز ہمیں ہیں
دنیا سے جو نسبت تھی تو گمنام رہے ہم
اب تجھ سے جو نسبت ہے تو ممتاز ہمیں ہیں
وہ انجمنِ نازِ بتاں ہو کہ سرِ دار
جس سمت سے گزرے ہیں، سرافراز ہمیں ہیں
دیکھیں جو کسی اور طرف بھی وہ سرِ بزم
مقصودِ نگاہِ غلط انداز ہمیں ہیں
اے گیسوئے برہم! جو سزا دے تو ہمیں دے
ہاں بے ادبِ انجمنِ ناز ہمیں ہیں
ہم ہوش میں جب تک تھے، تمہیں راز میں رکھا
بے خود ہیں تو اب پردہ درِ راز ہمیں ہیں
کل رات اٹھائی تھی تِری زلف نے تمہید
اب شوق کا دیباچہ و آغاز ہمیں ہیں
تھا قفل زباں پر، مگر اب دید سے تیری
طُوطی کی طرح زمزمہ پرداز ہمیں ہیں
ہر چیز زمانے کی ہمیں سے ہے عبارت
سینے میں ہے کونین کے جو راز، ہمیں ہیں
تحریر جو خالق نے کیا لوحِ ازل پر
اس بابِ پراسرار کا آغاز ہمیں ہیں
جبریلؑ جہاں بال کشا ہو نہیں سکتا
اس اوج پہ سرگرمِ تگ و تاز ہمیں ہیں
اے شاہدِ معنیٰ صفِ شیریں سخناں میں
ہے کوئی اگر شاعرِ طناز، ہمیں ہیں
اے جانِ ظفرؔ، حافظ و سعدی کی قفا میں
اب وارثِ مۓ خانۂ شیراز ہمیں ہیں
سراج الدین ظفر
No comments:
Post a Comment