Wednesday, 19 October 2016

دیکھوں ہوں یوں میں اس ستم ایجاد کی طرف

دیکھوں ہوں یوں میں اس ستم ایجاد کی طرف
جوں صید وقتِ ذبح کے صیاد کی طرف
نے دانہ ہم قیاس کی نے لحاظِ دام
دھس گئے قفس میں دکھ کے صیاد کی طرف
غیروں کی بات پر نہ کہوں کان مت رکھو
لیکن کبھو تو میری بھی فریاد کی طرف
پہنچانیں ہم نہ گل کو نہ ہم گل کے روشناس
منہ کر کے آنکھیں کھولیاں صیاد کی طرف
سامانِ نالہ سب ہے مہیا پر اے اثر
میں دیکھتاہوں تیری ہی امداد کی طرف
ثابت نہ ہووے خون مِرا روزِ باز پرس
بولیں گے اہلِ حشر تو جلاد کی طرف
سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف

مرزا رفیع سودا

No comments:

Post a Comment