Wednesday, 19 October 2016

اللہ ہووے بلبل ناشاد کی طرف

اللہ ہووے بلبلِ ناشاد کی طرف
گلچیں جو بولتا ہے تو صیاد کی طرف
برسوں سے قدِ یار کا مضموں نہیں بندھا
مدت ہوئی گئے نہیں شمشاد کی طرف
چلنے میں کی جو شوقِ شہادت نے رہبری
گردن جھکائی کوچۂ جلاد کی طرف
نکلا ہے تیری زلف کا جب سے کہ سلسلہ
آوازے ہیں اسیروں کے آزاد کی طرف
گردوں سے چاہتے ہیں یہی ہم گناہ گار
منہ سُوئے قبلہ، آنکھیں ہوں جلاد کی طرف
عاشق ہیں محوِ حسن، جو چاہو ستم کرو
کس کا خیال جاتا ہے، بے داد کی طرف
بیت الحزن میں میرے وہ یوسف کرم کرے
شادی کا بھی گزر ہو غم آباد کی طرف
جوشِ جنوں ہے موسمِ گل کا ہے زور و شور
سودائی کھنچے جاتے ہیں فساد کی طرف
دھوکا دیا ہے دام نے کس گل کی زلف کا
بلبل اشارے کرتے ہیں صیاد کی طرف
آتشؔ یہ وہ زمین ہے کہ جس میں شفیقِ من
سوداؔ ہوا ہے میرؔ سے استاد کی طرف

خواجہ حیدر علی آتش

No comments:

Post a Comment