سب یہی کہتے ہیں مجھ کو تِرا سودائی ہے
اب مِرا ہوش میں آنا تِری رسوائی ہے
گرمئ عشق مسلّم،۔ مگر اپنی حد میں
آج تک حسن کے دامن پہ بھی آنچ آئی ہے
کچھ تو کوچہ تِرا جنت کا نمونہ ہے بھی
حسن مدہوشِ ادا، رنگ پہ بھرپور شباب
اور ان سب کا خلاصہ تِری انگڑائی ہے
جانے والے تِری بے گانہ وشی کے صدقے
دیکھ، ادھر دیکھ کہ ہم سے بھی شناسائی ہے
جان سی شے کی مجھے عشق میں کچھ قدر نہیں
زندگی جیسے کہیں میں نے پڑی پائی ہے
رات بھر شمع جلاتا ہوں، بجھاتا ہوں سراج
بیٹھے بیٹھے یہی شغلِ شبِ تنہائی ہے
سراج لکھنوی
No comments:
Post a Comment