Thursday 20 October 2016

سب یہی کہتے ہیں مجھ کو ترا سودائی ہے

سب یہی کہتے ہیں مجھ کو تِرا سودائی ہے
اب مِرا ہوش میں آنا تِری رسوائی ہے
گرمئ عشق مسلّم،۔ مگر اپنی حد میں
آج تک حسن کے دامن پہ بھی آنچ آئی ہے
کچھ تو کوچہ تِرا جنت کا نمونہ ہے بھی
کچھ مِرے حسنِ تخیل کی بھی رعنائی ہے
حسن مدہوشِ ادا، رنگ پہ بھرپور شباب
اور ان سب کا خلاصہ تِری انگڑائی ہے
جانے والے تِری بے گانہ وشی کے صدقے
دیکھ، ادھر دیکھ کہ ہم سے بھی شناسائی ہے
جان سی شے کی مجھے عشق میں کچھ قدر نہیں
زندگی جیسے کہیں میں نے پڑی پائی ہے
رات بھر شمع جلاتا ہوں، بجھاتا ہوں سراج
بیٹھے بیٹھے یہی شغلِ شبِ تنہائی ہے

سراج لکھنوی

No comments:

Post a Comment