Thursday, 20 October 2016

یہ نہیں ہے کہ تجھے میں نے پکارا کم ہے

یہ نہیں ہے کہ تجھے میں نے پکارا کم ہے
میرے نالوں کو ہواؤں کا سہارا کم ہے
اس قدر ہِجر میں کی نجم شماری ہم نے
جان لیتے ہیں کہاں کوئی ستارا کم ہے
دوستی میں تو کوئی شک نہیں اس کی، پر وہ
دوست دشمن کا زیادہ ہے، ہمارا کم ہے
صاف اظہار ہو اور وہ بھی کم از کم دو بار
ہم وہ عاقل ہیں جنہیں ایک اشارا کم ہے
اتنی جلدی نہ بنا رائے مِرے بارے میں
ہم نے ہمراہ ابھی وقت گزارا کم ہے
باغ اک ہم کو ملا تھا مگر اس کو افسوس
ہم نے جی بھر کے بگاڑا ہے، سنوارا کم ہے
آج تک اپنی سمجھ میں نہیں آیا باصرؔ
کون سا کام ہے وہ جس میں خسارا کم ہے

باصر کاظمی

No comments:

Post a Comment