تم کو سو عذر ہیں، تم پیار پہ تیار نہیں
میرے جذبات کے آگے کوئی دیوار نہیں
کیوں نہ ہم ختم کریں سلسلۂ ذکرِ وفا
جبکہ ہم دونوں میں کوئی بھی وفادار نہیں
کتنا پابند ہے پردے کی روایت کا تُو
اب تو بیکار ہیں دزدیدہ نگاہوں کے سلام
جب تمناؤں کی پازیب میں جھنکار نہیں
بے جھجک آپکے جو دل میں ہو کہہ دیں مجھ سے
آپ سے مجھ کو کسی بات میں انکار نہیں
مِری رسوائی میں ہے آپ کی بھی رسوائی
میں جو مجرم ہوں تو کیا آپ گنہ گار نہیں
گردشِ وقت مجھے لائی ہے اس منزل پہ
اب تو دل میرا تمہارا بھی طلبگار نہیں
اصل میں ذوقِ نظارہ کی کمی ہے، ورنہ
کون سا پھول ہے جو آپ کا رخسار نہیں
دردِ دل لکھنے پہ قدرت مجھے حاصل ہے علیم
میں جو تم کو نہ رُلا دوں تو قلمکار نہیں
علیم عثمانی
No comments:
Post a Comment