خط اس کے اپنے ہاتھ کا آتا نہیں کوئی
کیا حادثہ ہوا ہے؟ بتاتا نہیں کوئی
گڑیا جوان کیا ہوئی میرے پڑوس کی
آنچل میں جگنوؤں کو چھپاتا نہیں کوئی
جب سے بتا دیا ہے نجومی نے میرا نام
کچھ اتنی تیز دھوپ نئے موسموں کی ہے
بیتی ہوئی رُتوں کو بھلاتا نہیں کوئی
دیکھا ہے جب سے خود کو مجھے دیکھتے ہوۓ
آئینہ سامنے سے ہٹاتا نہیں کوئی
اظہر یہاں ہے اب مِرے گھر کا اکیلا پن
سورج اگر نہ ہو تو جگاتا نہیں کوئی
اظہر عنایتی
No comments:
Post a Comment