وہ تڑپ جائے اشارہ کوئی ایسا دینا
اس کو خط لکھنا تو میرا بھی حوالہ دینا
اپنی تصویر بناؤ گے تو ہو گا احساس
کتنا دشوار ہے خود کو کوئی چہرہ دینا
اس قیامت کی جب اس شخص کو آنکھیں دی ہیں
اپنی تعریف تو محبوب کی کمزوری ہے
اب کے ملنا تو اسے ایک قصیدہ دینا
ہے یہی رسم بڑے شہروں میں وقتِ رخصت
ہاتھ کافی ہے ہوا میں یہاں لہرا دینا
پتے پتے پہ نئی رُت کے یہ لکھ دیں اظہر
دھوپ میں جلتے ہوئے جسموں کو سایہ دینا
اظہر عنایتی
No comments:
Post a Comment