Tuesday, 1 September 2020

یادوں نے رومال میں رہنا چھوڑ دیا

گاؤں کی چوپال میں رہنا چھوڑ دیا
یادوں نے رومال میں رہنا چھوڑ دیا
یار حسیں تھے لیکن دھوکے باز بھی تھے
میں نے بھی اشکال میں رہنا چھوڑ دیا
قیس ہوں لیکن دشت نشینی اور نہیں
عشق تیرے جنجال میں رہنا چھوڑ دیا
کالا بھی اب تیرے دل میں ڈوب گیا
جب سے اس نے دال میں رہنا چھوڑ دیا
یاد کو میں نے تیری یوں تقسیم کیا
خَد میں ہوں پر خال میں رہنا چھوڑ دیا
میں شوقین سا قیدی ہوں، پر یاد رہے
میں نے بھی گر جال میں رہنا چھوڑ دیا؟
ہجر میں انصر شعر کہے پر رقص نہیں
سُر میں تھا،۔ پر تال رہنا چھوڑ دیا

انصر منیر

No comments:

Post a Comment