گاؤں کی چوپال میں رہنا چھوڑ دیا
یادوں نے رومال میں رہنا چھوڑ دیا
یار حسیں تھے لیکن دھوکے باز بھی تھے
میں نے بھی اشکال میں رہنا چھوڑ دیا
قیس ہوں لیکن دشت نشینی اور نہیں
کالا بھی اب تیرے دل میں ڈوب گیا
جب سے اس نے دال میں رہنا چھوڑ دیا
یاد کو میں نے تیری یوں تقسیم کیا
خَد میں ہوں پر خال میں رہنا چھوڑ دیا
میں شوقین سا قیدی ہوں، پر یاد رہے
میں نے بھی گر جال میں رہنا چھوڑ دیا؟
ہجر میں انصر شعر کہے پر رقص نہیں
سُر میں تھا،۔ پر تال رہنا چھوڑ دیا
انصر منیر
No comments:
Post a Comment