Friday, 1 January 2021

نہ جانے شام نے کیا کہہ دیا سویرے سے

 نہ جانے شام نے کیا کہہ دیا سویرے سے

اجالے ہاتھ ملانے لگے اندھیرے سے

شجر کے حصے میں بس رہ گئی ہے تنہائی

ہر اک پرندہ روانہ ہوا بسیرے سے

جو اس کی بین کی دھن پر ہوا ہے رقص انداز

ٹھنی رہی ہے اسی سانپ کی سپیرے سے

ابھی یہ روشنی چبھتی ہوئی ہے آنکھوں میں

ابھی ہم اٹھ کے چلے آئے ہیں اندھیرے سے

تمہارا شہرِ نگاراں تو خوب ہے اظہر

بچا کے لائے ہیں دل آرزو کے گھیرے سے


اظہر نواز

No comments:

Post a Comment