Friday, 1 January 2021

پلکوں سے آسماں کو اشارہ کرو کبھی

 پلکوں سے آسماں کو اشارہ کرو کبھی 

آنسو ہمارے غم کا ستارہ کرو کبھی 

موسم جواں ہوا ہے بہاروں کے نور سے 

ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے نظارہ کرو کبھی

تنہائیوں کی راتوں میں اب ہم سے شرم کیا 

ملبوس خامشی کا اتارا کرو کبھی 

دہلیز پر کھڑے یوں سرِ راہِ رفتگاں 

اپنا بھی انتظار گوارا کرو کبھی 

دل شے عجیب ہے کہیں ہم لوٹ ہی نہ جائیں 

اس احتیاط سے نہ پکارا کرو کبھی 

یہ جاں تمہاری نذر ہے چاہے تو جان لو 

یہ دل تمہارا گھر ہے، سنوارا کرو کبھی 


ناظر وحید

No comments:

Post a Comment