Friday, 1 January 2021

اے شوق دل بھی ایک معما عجیب ہے

 اے شوق دل بھی ایک معما عجیب ہے

صحرا کو آندھیوں کی تمنا عجیب ہے

موجوں کے اضطراب نے دھڑکا دیا تھا دل

اترے جو ہم، اتر گیا دریا، عجیب ہے

دشوار ہو گئی ہے اب اپنی شناخت بھی

آئینہ کہہ رہا ہے کہ چہرہ عجیب ہے

شاخیں جو میرے صحن میں ہیں ان میں پھل نہ آئے

ہم سائے کا درخت بھی کتنا عجیب ہے

اٹھتی ہے اک فصیل تو گرتی ہے اک فصیل

فاخر یہ چاہتوں کا گھروندا عجیب ہے


احمد فاخر

No comments:

Post a Comment