اے شوق دل بھی ایک معما عجیب ہے
صحرا کو آندھیوں کی تمنا عجیب ہے
موجوں کے اضطراب نے دھڑکا دیا تھا دل
اترے جو ہم، اتر گیا دریا، عجیب ہے
دشوار ہو گئی ہے اب اپنی شناخت بھی
آئینہ کہہ رہا ہے کہ چہرہ عجیب ہے
شاخیں جو میرے صحن میں ہیں ان میں پھل نہ آئے
ہم سائے کا درخت بھی کتنا عجیب ہے
اٹھتی ہے اک فصیل تو گرتی ہے اک فصیل
فاخر یہ چاہتوں کا گھروندا عجیب ہے
احمد فاخر
No comments:
Post a Comment