Friday, 1 January 2021

تاب دیدار جو لائے مجھے وہ دل دینا

 تابِِ دیدار جو لائے مجھے وہ دل دینا

منہ قیامت میں دکھا سکنے کے قابل دینا

پاؤں یا رب مجھے تاج سرِ منزل دینا

ہاتھ بھی گردن مقصد میں حمائل دینا

غیر ظاہر نہ مظاہر کی حقیقت سمجھوں

اتنی تمیز میانِ حق و باطل دینا

ذوق میں صورت موج آ کے فنا ہو جاؤں

کوئی بوسہ تو بھلا اے لبِ ساحل دینا

رشکِ خورشد جہاں تاب دیا دل مجھ کو

کوئی دلبر بھی اسی دل کے مقابل دینا

اصل فتنہ ہے قیامت میں بہارِ فردوس

جُز تِرے کچھ بھی نہ چاہے مجھے وہ دل دینا

تیری الفت میں اسی طرح رہوں میں بے حال

حال دینا ہو اگر رحم کے قابل دینا

ہائے رے ہائے تِری عقدہ کشائی کے مزے

تُو ہی کھولے جسے وہ عقدۂ مشکل دینا

خوں فشانی ہو مِری آئینہ روئے فنا

دونوں آنکھوں کو رگِ گردنِ بسمل دینا

ناتوانی میں سہارے کو ہے یہ ہی کافی

دامنِ لطف غبارِ پسِ محمل دینا

سرِ دشمن سے کہیں آگ بھڑکتے دیکھی

شمع ساں مجھ کو سر افرازئ محفل دینا

تہمتِ دل دہیٔ غیر ہوس کیش غلط

آپ معشوق ہیں کیا جانیں بھلا دل دینا

نقد جان و دل ادھر دولت دیدار ادھر

ان کو لینا بہت آسان ہے مشکل دینا

رہ کے آغوش میں اے بحرِ کرم عاشق کو

قسمتِ سوختۂ سبزۂ ساحل دینا

تنگیٔ غنچۂ پژمردہ ہو صحرائے وسیع

اس قدر کلفتِ افسردگیٔ دل دینا

وعدہ کرنے سے بھی تنگیٔ دہن نے روکا

بوسہ کیسا کہ زبان ان کو ہے مشکل دینا

درد کا کوئی محل ہی نہیں جب دل کے سوا

مجھ کو ہر عضو کے بدلے ہمہ تن دل دینا

آسی زار میں کچھ ضعف سے حالت نہ رہی

درد دینا ہو تو برداشت کے قابل دینا


آسی غازی پوری

No comments:

Post a Comment