Friday, 1 January 2021

تمہارے پاس رہیں ہم تو موت بھی کیا ہے

 تمہارے پاس رہیں ہم تو موت بھی کیا ہے

مگر جو دور کٹے تم سے زندگی کیا ہے

جب اٹھ کے چل دئیے تم، تیرگی اُمڈ آئی

جو تم نہ ہو تو چراغوں کی روشنی کیا ہے

کچھ ایسے پھول بھی گزرے ہیں میری نظروں سے

جو کھِل کے بھی نہ سمجھ پائے زندگی کیا ہے

بس ان کی یاد کے ہم پاؤں چوم لیتے ہیں

ہمیں خبر نہیں معراجِ بندگی کیا ہے

کبھی جو گوش بر آواز ہو کے اس کو سنو

تمہیں پتہ بھی چلے سازِِ خامشی کیا ہے

مِری نگاہ نے کیا کیا نہ خواب دیکھے ہیں

تِری نگاہ نے اک بات سی کہی کیا ہے

ہمِیں نے ظلمتِ ہستی میں دل جلائے ہیں

یہ ہم سمجھتے ہیں درمانِ تیرگی کیا ہے

ابھر رہی ہے جو رہ رہ کے دل کی دھڑکن میں

وہ آرزو ہے کہ ہے اس کی بے بسی کیا ہے

خزاں نصیب ہوں نظریں جو اہلِِ گلشن کی

تو پھر بہار کے جلوؤں کی تازگی کیا ہے

جہاں میں یہ کبھی مجبور ہے کبھی مختار

ہے ایک شعبدہ آزاد، آدمی کیا ہے


آزاد گلاٹی

No comments:

Post a Comment