بکھرے کچھ اس طرح کہ سمیٹے نہیں گئے
غم کے طویل قصے لپیٹے نہیں گئے
بیٹی کا جس نے حصہ بھی بیٹوں کو دے دیا
مرقد پہ اس کے آج بھی بیٹے نہیں گئے
ان کو عروج عشق کے مطلب کا کیا پتہ؟
فرقت کی شب میں جو بھی گھسیٹے نہیں گئے
کہتا ہوں اب غموں سے شب و روز جائیے
آ کر وہ گھر میں اس طرح لیٹے، نہیں گئے
عجیب ساجد
No comments:
Post a Comment