Friday, 1 January 2021

کاش اب کہ ہو ایسا

 ”کاش اب کہ ہو ایسا“


جب کوئی بچھڑ جائے 

چلتے چلتے راہوں پر

زخم دل پہ لگتا ہے

درد کتنا ہوتا ہے

تم بھی جان جاؤ گے

عشق کتنا ظالم ہے

تم بھی مان جاؤ گے

یاد پھر ستائے گی

ہر گھڑی تمہیں اس کی

کاش ایسا ہو جائے

تیرے ساتھ مجھ جیسا

چھوڑ جائے تجھ کو بھی 

تیرا ہمسفر اک دن

اجنبی سی راہوں میں

اور پھر اسی رستے 

جس جگہ مجھے تُو نے

کر دیا اکیلا تھا 

وہ بھی چھوڑ دے تجھ کو 

بات پھر یہ اندر سے توڑ پھوڑ دے تجھ کو

پھر میں تجھ سے پوچھوں گا

فُرقتوں کی راتوں میں تارے گننا کیسا ہے

بارشوں کے پانی پر حرف لکھنے جیسا ہے

پھر تجھے خبر ہو گی

پھر تجھے خبر ہو گی

رستے میں کسی کو بھی 

 پھر کبھی نہ چھوڑے گا

اجنبی سی راہوں پر

اجنبی سی راہوں پر

کاش اب کہ ہو ایسا

کاش اب کہ ہو ایسا


عجیب ساجد

No comments:

Post a Comment