خون رونے کو حیض کہتا ہے
یہ ستمگر تو کوئی زنخہ ہے
رقص کرتا ہوا یہ ملغوبہ
بے نسب حاجتوں کا پُرسہ ہے
یہ جو کپڑے ہیں مصلحت والے
داغ ان پہ بھی خوب سجتا ہے
یہ زمیں بار وَر نہیں ہو گی
اس کو تو لاکھ بار کهودا ہے
زہر کهانے کا مشغلہ حسنی
ایسی گفتار کا نتیجہ ہے
ذوالقرنین حسنی
No comments:
Post a Comment