لبوں پہ شکوۂ ایام بھی نہیں ہوتا
زباں پہ اب تو تِرا نام بھی نہیں ہوتا
کبھی کبھی اسے سوچوں تو سوچ لیتا ہوں
کبھی کبھار یہ اک کام بھی نہیں ہوتا
یہ میکدہ ہے نہیں مے کشو یہ دھوکا ہے
یہاں تو نشہ تہہِ جام بھی نہیں ہوتا
نہیں یہ درد نہیں یہ ضرور ہے کچھ اور
کہ اس میں تو مجھے آرام بھی نہیں ہوتا
وہ اجنبی سا رویہ وہ دل شکن انداز
جب ان کے ہونٹوں پہ الزام بھی نہیں ہوتا
تِرے بغیر مسافت میں پلِ صراط ہوا
وہ رہ گزار جو دو گام بھی نہیں ہوتا
سحرؔ تم اس سے ملاقات کیسے کرتے ہو
وہ شخص تو اب لبِ بام بھی نہیں ہوتا
وقار سحر
No comments:
Post a Comment