کسی گھر میں کوئی پتھر گِرا تھا
مگر، نزلہ فقط مجھ پر گرا تھا
انا میں دب گئے سب خواب میرے
بتوں کے سر پہ خود مندر گرا تھا
میں اکثر جھانکتا تھا پانیوں میں
مِرے ہی عکس پر کنکر گرا تھا
مِرے پاؤں میں لرزش تک نہ آئی
اسی کے ہاتھ سے خنجر گرا تھا
سنبھلنے کی بھی ہمت تھی نہ اس میں
وہ کیسے موڑ پر آ کر گرا تھا
صدا آتی بھی گر تو کون سنتا
کہ شیشہ ٹوٹ کر اندر گرا تھا
سلیم ان گھاٹیوں سے کیسے بچتا
کہ جن میں راستہ کٹ کر گرا تھا
حیدر سلیم
No comments:
Post a Comment