Monday, 24 January 2022

جب بھی اطراف میں پھیلا ہوا ڈر بند کیا

 جب بھی اطراف میں پھیلا ہوا ڈر بند کیا 

خواب میں جست بھری نیند کا در بند کیا

پہلے ترتیب دیا میں نے یہاں اک منظر 

اور پھر دیکھنے والوں کو نظر بند کیا 

ڈوب جانی تھی یہ دنیا کسی تاریکی میں 

میرے گریے نے چراغوں کو سحر بند کیا

کیسے گزریں گے سرِ راہ گزرنے والے 

زندگی! تُو نے اگر راہگزر بند کیا 

اس کے ہاتھوں ہی سے تخلیق ہوئی ہے دنیا

جس مصور نے پرندوں کو شجر بند کیا 

ایسا فقدان رہا فیصلہ سازوں کا اسیر

عمر بھر آبلہ پاؤں کو سفر بند کیا 


کامران اسیر

No comments:

Post a Comment