جب بھی اطراف میں پھیلا ہوا ڈر بند کیا
خواب میں جست بھری نیند کا در بند کیا
پہلے ترتیب دیا میں نے یہاں اک منظر
اور پھر دیکھنے والوں کو نظر بند کیا
ڈوب جانی تھی یہ دنیا کسی تاریکی میں
میرے گریے نے چراغوں کو سحر بند کیا
کیسے گزریں گے سرِ راہ گزرنے والے
زندگی! تُو نے اگر راہگزر بند کیا
اس کے ہاتھوں ہی سے تخلیق ہوئی ہے دنیا
جس مصور نے پرندوں کو شجر بند کیا
ایسا فقدان رہا فیصلہ سازوں کا اسیر
عمر بھر آبلہ پاؤں کو سفر بند کیا
کامران اسیر
No comments:
Post a Comment