مل گئے منزلوں کے نشاں خودبخود
راستے ہو گئے مہرباں خودبخود
برق کو باغباں! تھا اشارہ تیرا
کب جلا ہے مِرا آشیاں خودبخود
مجھ کو شاید ملے گا ٹھکانہ یہیں
لے کے آیا مِرا دل یہاں خودبخود
جب کسی نے بھی آتش لگائی نہیں
کیوں پھنکنے لگا ہے مکاں خودبخود
دیکھ کر آنکھ سے ظلم مظلوم پر
کھل گئی ہے ہماری زباں خودبخود
میں تو جا کر کبھی بھی نہ اس سے ملی
پر ہوئی دوستی ناگہاں خودبخود
نم نگاہوں سے زبدہ نہ کچھ چھپ سکا
داستاں ہو گئی ہے عیاں خودبخود
زبدہ خان
No comments:
Post a Comment