کتنی اداس رات تھی اب تم سے کیا کہوں
تنہا یہ میری ذات تھی اب تم سے کیا کہوں
شعلوں میں جل رہی تھیں یہ سانسوں کی ٹہنیاں
حالاں کہ سرد رات تھی اب تم سے کیا کہوں
سورج پگھل گیا وہ اندھیروں کے درمیاں
روشن سی اس کی ذات تھی اب تم سے کیا کہوں
سننے کا وقت تم نے گنوایا ہے جان کر
ہونٹوں پہ دل کی بات تھی اب تم سے کیا کہوں
داؤد! اس نے ہاتھ میرا تھام کر کہا
کہنی تو دل کی بات تھی اب تم سے کیا کہوں
داؤد اسلوبی
No comments:
Post a Comment