Monday, 24 January 2022

کتنی اداس رات تھی اب تم سے کیا کہوں

 کتنی اداس رات تھی اب تم سے کیا کہوں

تنہا یہ میری ذات تھی اب تم سے کیا کہوں

شعلوں میں جل رہی تھیں یہ سانسوں کی ٹہنیاں

حالاں کہ سرد رات تھی اب تم سے کیا کہوں

سورج پگھل گیا وہ اندھیروں کے درمیاں

روشن سی اس کی ذات تھی اب تم سے کیا کہوں

سننے کا وقت تم نے گنوایا ہے جان کر

ہونٹوں پہ دل کی بات تھی اب تم سے کیا کہوں

داؤد! اس نے ہاتھ میرا تھام کر کہا

کہنی تو دل کی بات تھی اب تم سے کیا کہوں


داؤد اسلوبی

No comments:

Post a Comment