Sunday, 23 January 2022

کتاب زیست کے ہر باب کے عنوان میں تم ہو

 کتابِ زیست کے ہر باب کے عنوان میں تم ہو​

ہے یہ تحریر سے ظاہر میرے وجدان میں تم ہو​

اماوس ہے تیرا کاجل، جبیں ہے نور کا پرتو​

چمن کی ہر کلی سے پھوٹتی مسکان میں تم ہو​

کوئی اجڑا ہوا مندر، اٹی ہو گرد سے مورت​

کچھ ایسے ہی میری جان اس دلِ ویران میں تم ہو

​مجھے زندہ لیے پھرتا ہے یہ احساس کہ اب تک​

تیری پہچان میں مَیں ہوں، میری پہچان میں تم ہو​

میرے خوابو! اداسی ہے مِری آنکھوں میں بعد ان کے​

اگرچہ رت جگے مغوی ہیں، پر تاوان میں تم ہو​

یہی کافی ہے بتلانا فقط اک دل ہے سینے میں​

بہت ارمان ہیں دل میں، ہر اک ارمان میں تم ہو​

تو کیا غم ہے جو حاوی ہو گیا ہے لشکرِ اعداء​

تمہاری جیت ہے قیصر ابھی میدان میں تم ہو


نعیم قیصر

No comments:

Post a Comment