کیوں تیرگی سی چھائی چراغوں کے درمیاں
کیا حسن چھپ گیا ہے نقابوں کے درمیاں؟
وہ نیند میں بھی آنکھ سے اوجھل نہ ہو جناب
اس کو بسا لیا ہے نگاہوں کے درمیاں
شدت ہے پیاس میں تو سرور کے جا قریب
کب تشنگی مٹی ہے سرابوں کے درمیاں
جو غور سے پڑھو گے سوالوں کو بار بار
مل جائے گا جواب سوالوں کے درمیاں
ملتا نہیں ہے کچھ بھی تردد کیے بغیر
کانٹے بھرے پڑے ہیں گلابوں کے درمیاں
شاید مِرے صنم نے کیا یاد مجھ کو آج
ہچکی تبھی ہے آئی نوالوں کے درمیاں
پلوی مشرا
No comments:
Post a Comment