اپنی آواز کو کھوجتے کھوجتے
میں کہاں آ گیا؟ بولتے بولتے
جانے کس وقت جاگا خیالوں سے میں
جانے کب سو گیا سوچتے سوچتے
ان اداؤں پہ یہ جان بھی جائے گی
دل چلا ہی گیا روکتے روکتے
ہجر کی رات بھی کتنی رنگیں ہوئی
اس کی یادوں کے لب چومتے چومتے
جتنی گرہیں لگا کر گئے دل میں تم
اور بھی کَس گئیں کھولتے کھولتے
ہو کے مُنکر بھی شاہد نباہی وفا
بت کو سجدہ کیا توڑتے توڑتے
شاہد جان
No comments:
Post a Comment