Sunday, 23 January 2022

ہمراہ مرے رہا ہے تو بھی

 ہمراہ مِرے رہا ہے تُو بھی

خوابوں کے طویل سلسلے میں

پھر چلنے لگی ہوائے صحرا

دل ڈوب رہا ہے وسوسے میں

اے ابرِ بہار! اب نہ ترسا

برداشت کہاں ہے دل جلے میں

​  محفوظ ہے تیری ہر نشانی

برگد کے اسی کھوکھلے تنے میں​

بکھرے ہیں دھنک کے رنگ سارے

صابن کے ذرا سے بُلبلے میں

خود میرے لیے وہ اجنبی تھا

چہرہ جو مِرا تھا آئینے میں


حفیظ الرحمٰن

No comments:

Post a Comment