شب گئے جانیے کس ڈر سے نکل آتا ہے
ایک سایہ مِرے اندر سے نکل آتا ہے
دل کی تصویر ابھر آتی ہے ویرانے سے
آنکھ کا عکس سمندر سے نکل آتا ہے
خواب کو خواب کا پیوند لگا لیتا ہوں
اور تُو گمشدہ منظر سے نکل آتا ہے
خود کو دیتا ہے بڑی دیر تلک آوازیں
اور پھر خود ہی کوئی گھر سے نکل آتا ہے
میں وہ ساعت ہوں کہ جس میں کوئی فاتح بن کر
زیر ہوتے ہوئے لشکر سے نکل آتا ہے
ساون شبیر
No comments:
Post a Comment