پرانے گھر میں نیا گھر بسانا چاہتا ہے
وہ سوکھے پھول میں خوشبو جگانا چاہتا ہے
نہ جانے کیوں تِرے معصوم جھوٹ کو آخر
زمانہ سچ کی طرح آزمانا چاہتا ہے
ابھی تپاس سے نکلا نہیں تِرا سادھو
کہ پھر سے اک نئی دھونی رمانا چاہتا ہے
یہ آبدیدہ ٹھہر جائے جھیل کی صورت
کہ ایک چاند کا ٹکڑا نہانا چاہتا ہے
خود اپنی آنکھ میں پانی اتارنے والا
ہماری آنکھ کو صحرا بنانا چاہتا ہے
تجھے تو باندھ کے رکھا ہے نیستی نے شہاب
تُو ہے کہ حد فسوں کو مٹانا چاہتا ہے
مصطفیٰ شہاب
No comments:
Post a Comment