Monday, 24 January 2022

ہم اپنے حال میں ماضی کی شان بھول گئے

 ہم اپنے حال میں ماضی کی شان بُھول گئے

عطور بھول گئے،۔ پاندان بھول گئے

گلی میں بھولی ہوئی اک، کمان بھول گئے

رگوں میں کس کا لہو ہے، جوان بھول گئے

درخت پر یہ پرندوں نے کیوں سکوت کیا

یہ کیا ہوا؟ کہ مؤذن اذان بھول گئے

نشے میں ایسے بھی گم تھے تِرے تصور کے

کہ اس خمار میں اپنا مکان بھول گئے

نہ عزم کی رہی پرواہ ،نہ غم حوالے کا

زمین بھول گئے،۔آسمان بھول گئے

وہ جنگجو تھے مگر خُو قلندرانہ رہی

سفیرِ امن ہوئے یہ، امان بھول گئے

لبوں سے چھن گئی لہجوں کی یوں بھی تاثیریں

رہا ہوئے تو پرندے اُڑان بھول گئے


خواجہ ثقلین

No comments:

Post a Comment