جب کبھی آسمان کھلتا ہے
دھند کے درمیان کھلتا ہے
یوں در دل تو کھولیے صاحب
جیسے خالی مکان کھلتا ہے
اس طرح مجھ سے کیوں کھلیں گے آپ
جس طرح بادبان کھلتا ہے
میرے مہمان بن کر تو دیکھیں
کس طرح میزبان کھلتا ہے
کوئی کھڑکی کبھی جو کھلتی ہے
گویا پورا مکان کھلتا ہے
بے زبانی بھی سوچیے اس کی
جب کوئی بے زبان کھلتا ہے
در حقیقت یقیں کی سرحد پر
سارا وہم و گمان کھلتا ہے
ایک اور تہذیب سانس لیتی ہے
جب کوئی پان دان کھلتا ہے
حسن کی بارگاہ میں اکثر
دست بستہ امان کھلتا ہے
یاور امان
No comments:
Post a Comment