بے دلی سے دیوانے ایسے مسکرائے ہیں
عقل چیخ اٹھی ہے،۔ ہوش لڑکھڑائے ہیں
مُدعا کے جو ریزے رہ گئے تھے سینے میں
کچھ دلوں میں اٹکے ہیں کچھ لبوں تک آئے ہیں
آرزو کی پگڈنڈی اَٹ رہی ہے پھولوں سے
مےکدے کی راہوں میں آنچلوں کے سائے ہیں
اب بھی تم نہیں سمجھے فرقِ شمع و پروانہ
تم نے چَھب جلائی ہے ہم نے دل جلائے ہیں
برقرار ہیں کیسے اعتماد دونوں کے
ہم لُٹے لُٹائے ہیں،۔ وہ سجے سجائے ہیں
محتسب عدم مجھ سے اس بِنا پہ برہم ہیں
میں نے مے گساروں کے حوصلے بڑھائے ہیں
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment