آنکھیں تو
بے اختیار ہوتی ہیں
یہ کب جانتی ہیں
انہیں کہاں برسنا ہے
کہاں جذب کئے رکھنا
کھارے پانی کو
یہ کب سہتی ہیں
ہماری سر برہنہ زندگی
سے وابستہ ان گنت
خواہشوں کے بوجھ کو
محبتوں میں ہوئی
ذات کی نیلامی کو
نہ گفتگو میں بیزاری کو
نہ لہجوں کی تلخی کو
یہ کب سہتی ہیں
یہ تو برس جاتی ہیں
بے وقت کہی بھی
ان بادلوں کی طرح
برس کر من کے موسم کو
آب آب کر دیتی ہیں
ہاں یہ کب جانتی ہیں
انہیں کہاں برسنا ہے
انہیں کہاں برسنا ہے
راحیلہ منظر
No comments:
Post a Comment