Thursday 24 February 2022

آنکھیں تو بے اختیار ہوتی ہیں

 آنکھیں تو

بے اختیار ہوتی ہیں

یہ کب جانتی ہیں

انہیں کہاں برسنا ہے

کہاں جذب کئے رکھنا

کھارے پانی کو

یہ کب سہتی ہیں

ہماری سر برہنہ زندگی

سے وابستہ ان گنت

خواہشوں کے بوجھ کو

محبتوں میں ہوئی

ذات کی نیلامی کو

نہ گفتگو میں بیزاری کو

نہ لہجوں کی تلخی کو

یہ کب سہتی ہیں

یہ تو برس جاتی ہیں

بے وقت کہی بھی

ان بادلوں کی طرح

برس کر من کے موسم کو

آب آب کر دیتی ہیں

ہاں یہ کب جانتی ہیں

انہیں کہاں برسنا ہے

انہیں کہاں برسنا ہے


راحیلہ منظر

No comments:

Post a Comment