Thursday 24 February 2022

درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت

 درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت

اے غمِ ہستی! ہمیں دنیا پسند آئی بہت

ہو نہ ہو دشت و چمن میں اک تعلق ہے ضرور

باد صحرائی بھی خوشبو میں اٹھا لائی بہت

مصلحت کا جبر ایسا تھا کہ چپ رہنا پڑا

ورنہ اسلوبِ زمانہ پر ہنسی آئی بہت

بے سہاروں کی محبت بے نواؤں کا خلوص

آہ یہ دولت کہ انسانوں نے ٹھکرائی بہت

بے خیالی میں بھی کتنے فاصلے طے ہو گئے

بے ارادہ بھی یہ دنیا دور لے آئی بہت

اپنی فطرت میں بھی روشن ہوں گے لیکن اے ضمیر

میری راتوں سے بھی تاروں نے چمک پائی بہت


ضمیر جعفری

No comments:

Post a Comment