حرف کو پھول بناتے ہوئے اِتراتی ہوں
میں تجھے اپنا بتاتے ہوئے اتراتی ہوں
ساحل وقت پہ چلتے ہوئے دیکھا تم نے
نقشِ پا اپنے بناتے ہوئے اتراتی ہوں
ہے کوئی خوابچہ کب سے مِری انگلی تھامے
میں اسے چلنا سکھاتے ہوئے اتراتی ہوں
اتر آتی ہیں مِری چھت پہ ہنستی راتیں
اور میں چاند اڑاتے ہوئے اتراتی ہوں
ان گِنت نجم تہِ جاں میں اتر آتے ہیں
آنکھ کی پتلی گھماتے ہوئے اتراتی ہوں
لہلہاتا ہے خیالوں میں تمہارا چہرہ
اور میں ہاتھ لگاتے ہوئے اتراتی ہوں
دھوپ کی برکھا ہے یہ چھاجوں برس جاتی ہے
دیر تک اس میں نہاتے ہوئے اتراتی ہوں
کیسے گلنار سے ہو جاتے ہیں عارض میرے
میں تِرے سامنے آتے ہوئے اتراتی ہوں
چہچہاتی ہیں خیالات کی چڑیاں مہناز
درد کی فصل اگاتے ہوئے اتراتی ہوں
مہناز انجم
No comments:
Post a Comment